تاریخ شائع کریں2012 5 August گھنٹہ 11:06
خبر کا کوڈ : 104684
ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام کی چوتھی محفل کی پہلی نشست:

جب مسجدالحرام میں مسلکوں کا امتیاز رکھے بغیر نماز ہوتی ہے تو علاقائی مسجدوں میں کیوں نہیں!

تنا (TNA) برصغیر بیورو
اسلامی مسالک کے درمیان قربت اور یکجہتی کی اسلامی ثقافت کو فروغ دینے اور امت اسلامی کے دشمنوں کی سازشوں سے عوام کو باخبر کرنے کے حوالے سے درس اسلام کے عنوان سے کشمیر میں عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے نمایندے نے ٹی پر محفل مذاکرہ کا سلسلہ شروع کیا ہے جسکی چوتھی محفل کی پہلی نشست کی گفتگو قارئین کے نذر ہے۔
ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام کی چوتھی محفل میں شریک گفتگو حاج عبدالحسین کشمیری اور میرواعظ مولانا سید عبدالطیف بخاری
ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام کی چوتھی محفل میں شریک گفتگو حاج عبدالحسین کشمیری اور میرواعظ مولانا سید عبدالطیف بخاری
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ۔اللَّهُ الصَّمَدُ۔لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَدْ۔وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدُ: درس اسلام کو لیکر اس کی چوتھی نشست کا آغاز کلام اللہ مجید سے:
میزبان عبدالحسین:ان ہی آیات کریمہ کی روشنی میں جس طرح پچھلی محفلوں کی نشستوں میں اسلام کے اُن مسائلوں کی باتیں جو علماء نے کی کہ مسلمان کو عملی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اوراحترام کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور جو بھی تفرقہ بازی کی باتیں سامنے آتی ہیں وہ آخر میں ثابت ہوتی ہیں کہ اُس کی جو بنیاد ہے اسلامی تعلیمات پر مبنی نہیں ہوا کرتی ہیں جیسے کہ شیعوں پہ الزام کہ وہ اصحاب کے نسبت بد کلامی کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ نہیں ایسا شیعہ اثنا عشری نہیں کرتا ہے ،اسی طرح سنیوں پہ وہ اہلبیت رسول اللہ کے نسبت بغض رکھتے ہیں وغیرہ ۔اب تک علماء نے علمی دلائل سے یہ باتیں واضح کر دی کہ بنیاد جو ہے ہماری اسلام کی ، ہمیں ان بنیادی اصولوں پر اپنے آپ کو سانچے میں ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 

آج ماہ مبارک رمضان کے ایام میں ہم آپ کے دستر خوان پہ آئے ہیں کہ جسے اللہ نے اپنا دسترخوان کہا ہے کہ جس میں نعمتیں اور رحمتیں اللہ کی تقسیم ہوتی ہیں۔ اور آج ہمارے شریک گفتگو ہیں جناب میر واعظ وسطی کشمیر مولانا سید عبد الطیف بخاری صاحب۔ 

مولانا میں سورہ آل عمران آیت ۱۰۳ کی روشنی میں آج کی گفتگو کو آگے بڑھانا چاہوں گا کہ یہ تقریباً سبھی کو حفظ بھی ہے "وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا" کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ نہ کرو ۔ کیا یہ قرآن کی آیت کسی خاص مسلک کے لئے ہے، کسی خاص ملک کے لئے ہے، کیا کسی شہر کے لئے ہے۔ آپ کیا کہنا چاہئے گے کہ اس کو ہم کس طریقے سے سمجھیں ہیں اور اس پہ کس حد تک ہم عمل کرتے ہیں۔ 

میر واعظ وسطی کشمیر و امام جمعہ جامع مسجد بیروہ مولانا سید عبدالطیف بخاری: دراصل قرآن کا جو بھی حکم ہے وہ پہلے مومنوں کے لئے ہیں اس کے بعد قرآن کا ہر حکم اس کا مخاطب انسان ہے۔ تو جہاں تک اس آیت میں کہا گیا ہے کہ "وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُو" تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے قرآن کے بارے میں "وھو حبل اللہ المتین" یہ اللہ کی ایک رسی ہے ، رسی سے اس کو اسلئے تشبیہ دی گئی ہے کہ ایک طرف تو یہ بندے اور خدا کے درمیان جو تعلق ہے وہ قرآن ہی جوڑ دیتا ہے۔ تو دوسری بات یہ ہے کہ قرآن ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ہم کو متفق ہونا چاہئے۔ جیسا کہ دوسری جگہ پر ہے کہ "فَإِنْ تَنازَعْتُمْ في‏ شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْويلاً" اگر ہمیں کوئی اختلاف ہوجائے تو ہمیں فوراً خدا اور رسول کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ تو جہاں تک یہ تفرقہ کی بات ہے اسلام میں اختلاف جائز حدود میں ہو تو اس کی اجازت ہے۔ کوئی علمی اختلاف ہو تو یہ علمی اختلاف کی اسلام میں اجازت ہے کہ اختلاف کیا جاسکتا ہے، رائے کا اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ تو ایسے اختلافات صحابہ میں بھی پائے جاتے تھے۔ کہ کوئی ایک آیت کی ایک تفسیر کرتا تھا ، کوئی دوسری تفسیر کرتا تھا۔ 

عبدالحسین:جی ہر علمی میدان میں آپ سائنس میں جائیں، آپ فزیکس میں جائیں آپ دیکھے گے کہ وہاں کے علماؤں کو علمی مسائل پہ اختلاف رائے ہوا کرتا ہے کسی کی نظر کچھ اور ہوتی ہے اور ایسے اختلاف کو جاہلانہ رنگ نہیں دے سکتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ مذید وضاحت کے ساتھ بیان کریں کہ "اعتصموا"مضبوطی سےپکڑے رہنا،"حبل اللہ" یعنی اللہ کی رسی کو وہ بھی "جمعیا" یعنی اجتماعی طور پر اور چونکہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے آپ یہ بھی بتائیں کہ" جَميعاً " پر ہم کس طریقے سے عمل پیرا ہوسکتے ہیں کیونکہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ عملی طور پر بہت کم مسلمان اس چیز کو ظاہر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس پہ آپ روشنی ڈالئے۔ 

میر واعظ: جب ہم " جَميعاً" کا لفظ بولتے ہیں تو جو اسلام ہے یہ صرف فرد کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ اسلام اجتماع کے لئے آیا ہے۔ اجتماعیت کے لئے آیا ہے۔ ہم وہ اسلام کا جوپیغام ہے ، اسلام کی دعوت ہے، اسلام کے جو اعمال ہیں ان پر ہمیں اجتماعی طور عمل کرنا ہوتا ہے جیسے ہم نماز اجتماعی طور پڑھتے ہیں، زکوٰۃ اجتماعی طور جمع کی جاتی ہے، حج اجتماعی طور ادا ہوتا ہے۔ تو اسی طرح ہمارا جو اتفاق ہے قرآن کا جو تھامنا ہے یہ بھی اجتماعی طور ہے۔ 

عبدالحسین:تو یہی اتفاق کیسے یقینی بنایاجائے گا کیونکہ مسلمان انفرادی طور تو متحد ہیں لیکن اجتماعی طور متحد نظر نہیں آتے۔ 

میرواعظ: یہی میں کہہ رہا تھا کہ ہمیں اختلاف اور تفرقہ میں پہلے فرق کرنا چاہئے۔ کیونکہ اکثر لوگ یہ اختلاف اور تفرقہ جو ہے ایک ہی معنی میں لیتے ہیں ایسی بات نہیں ہے۔ اختلاف اور اختلاف رائے ہو تو یہ جائز ہے لیکن تفرقہ حرام ہے۔ تفرقہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے نفرت کرے۔ ایک مسلک کے فرو دوسرے مسلک کے گرو ہ سے نفرت کرے۔ یا ہم اپنی مسجدیں الگ الگ بنائیں ، اپنی پہچان الگ الگ بنائیں۔ ہم ایک دوسرے کو مسلمان نہ سمجھیں ۔ تو اس چیز کا نام تفرقہ ہے۔ جب تفرقہ پیدا ہوتا ہے تو یہ لڑائی جھگڑے پر ختم ہوتا ہے۔ نفرت کا جو انجام ہوتا ہے وہ لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلے ہم کو اس میں فرق کرنا ہے۔ تو جہاں تک "اعتصام" کی بات ہے تو ایک حدیث میں ہے کہ پہلے یہ دین جو ہے دین کو صراط المستقیم سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تو جب ہم اجتماعی طور ہمیں اس صراط المستقیم پر چلنا ہے انفرادی طور نہیں اجتماعی طور۔ کیونکہ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو سورہ فاتحہ کی یہ آیت جب ہم پڑھتے ہیں دعا کی صورت میں "اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم"( ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما) ہم اجتماعی صورت میں کہتے ہیں ۔اگر ہم تنہا بھی نماز پڑھتے ہوں ، انفرادی نماز پڑھتے ہوں اس وقت بھی " اهْدِنَا" ہی کہنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو اسلام کی برکت ہے وہ اس وقت بھی ہمیں دوسروں کو اس میں شامل کرنا ہے۔ تو اب اگر کوئی اس راہ سے بھٹک جائے دور ہوجائے جس کو ہم گمراہ کہتے ہیں۔تو اسلام اسی لئے آیا ہے کہ ضلالت سے ، گمراہی سے انسانیت پر چلے، صراط المستقیم پر چلتا رہے اور اس پر ثابت قدم رہے تو اسی میں اس کی اخروی اور دنیاوی فلاح ہے۔ جہاں تک" اعتصام" کی بات ہے ۔ 

عبدالحسین:اعتصام سے پہلے میں ایک اور بات کی آپ سےمزید وضاحت چاہوں وہ یہ جو آپ نے خوبصورت الفاظ میں اختلاف اور تفرقہ کے درمیان ایک وضاحت بیان کی اُس کو آپ نے اور مزید وضاحت کرنی ہوگی کیوں؟ ۔ کیونکہ یہ بات عوام کو سمجھنی ضروری ہے کہ جو اختلاف مسلکی ہے وہ علمی مسائل کے اختلاف ہیں ، یہ تفرقہ نہیں ہے ۔ اگر شیعہ ہے، سنی ہے یہ تفرقہ نہیں ہے، اختلاف رائے ہے ۔ یہ جو حنفی ، شافعی، حنبلی ، مالکی ، جعفری ہے یہ اختلاف رائے ہے، یہ علمی اختلاف رائے ہے۔ یہ تفرقہ نہیں ہے۔ اور اس کو سمجھنا ہے ۔ اگر ہم یہ نہ سمجھیں تب ہم حقیقت میں اللہ کی رسی کو نہیں پکڑ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں آج اس مہینے میں ہی ہم اللہ کی رسی کو کیسے مضبوطی کے ساتھ "اعتصام "کرسکتے ہیں تھام سکتے ہیں ۔ آپ اس کی وضاحت کریں۔
میر واعظ: جو رمضان کا مہینہ ہے ۔ رمضان کے مہینے میں ہی قرآن نازل ہوا ہے۔ " شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ" قرآن اسی میں نازل ہوا ہے۔ اور قرآن کی جو نعمت ہمیں ملی ہے اس کا شکریہ ہم اس صورت میں کرتے ہیں کہ ہم ماہ رمضان میں روزے رکھتے ہیں، خدا کے احکام پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خد اکی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں، اور یہ جو روزے ہم رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ میں تقویٰ پیدا کریں۔ اور جب ہم تقویٰ کی بات کرتے ہیں۔ تو ہمیں جو ممنوعات ہیں ، حرام چیزیں ہیں ، ان سے بچنا ہے ۔ تو تفرقہ سے بھی بچنا تقویٰ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو یہ تفرقہ ہے اس سے بھی بچنا تقوی ہے ۔ 

عبدالحسین:جی ہاں؛یہ مہینہ اس کو عملی طور پر سمجھنے کے لئے بہتر ین موقعہ ہے۔ 

میرواعظ: تو ایسا نہیں کہ اسلام نے انفرادی طور روزے فرض کئے ہوں کوئی ایک دفعہ رکھے ، کوئی دوسری دفعہ رکھے ، ایک ہی مہینے میں روزے ہیں، ہم ایک ساتھ افطار کرتے ہیں، ایک ساتھ سحری کرتے ہیں، ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جو رمضان کا مہینہ ہے یہ تفرقہ مٹانے کے لئے آیا ہے اور ہمارے اتحاد، اتفاق اور اجتماعیت کو مضبوط کرنے کے لئے آیا ہے۔ 

عبدالحسین:بہت عمدہ یعنی یہ جو ماہ مبارک رمضان ہے اس میں ہم عملی طور پر اختلاف کو اختلاف رائے ثابت کر سکتے ہیں اور تفرقہ سے بچ سکتے ہیں۔ یہ جو اختلاف رائے ہے کہ جعفری کہتا ہے کہ جب غروب آفتاب کے وقت اسکی سرخی ختم ہوجائے میں تب افطار کروں گا مگر حنفی کہتے ہیں کہ نہیں غروب ہوجائے افطار کا وقت ہو گيا ۔تو یہ علمی باتیں ہوگئی ۔ یعنی افطار کرنے کا مقصد دونوں کا ایک ہے کہ نہیں ۔ روزہ دونوں نے رکھا ہےکہ نہیں ۔ غرض یہ کہ یہ اختلاف علمی اختلا ف ہے اسی لئےعلماء کا فتوی ہے کہ جہاں پر جس مسلک کے مسلمان اکثریت میں ہوں انکے تابع عمل کرسکتے ہیں ۔ 

ابھی بات چل رہی تھی سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۳ کی روشنی میں کہ اگر اللہ نے فرمایا ہے" وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا " اس کو ہم سمجھنے میں کیوں قاصر نظر آتے ہیں۔ اور جس طرح میر واعظ صاحب نے بھی کہا کہ قرآن نے،اسلام نے جس کی بہت زیادہ ممانعت کی ہے وہ تفرقہ ہے، اختلاف رائے کی نہیں وہ بھی علمی اختلاف جب ہو۔ اور ماہ مبارک رمضان ان باتوں کو قرآن کی آیات کو سمجھنے کے لئے بہترین فرصت ہے۔ تو اس کے لئے ایک اجتماعی تشہیر ہمارے معاشرے میں ضروری طور دیکھنے کو ملنی چاہئے کہ ہم اس اعتصام باللہ کو کس حد تک سمجھیں ہیں۔ کس طرح ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں گے۔ 

محفل مذاکرہ درس اسلام کی چوتھی محفل کی دوسری نشست میں گفتگو جاری ہے
https://taghribnews.com/vdcc40qs02bqxe8.c7a2.html
منبع : تنا کشمیر بیورو
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ