تقریب نیوز (تنا): بحرین کے ایک عالم دین آیت الله سید عبدالله غریفی نے گذشتہ روز بحرین کے قفول علاقہ کی مسجد امام صادق(ع) میں اس ملک کی سیاسی و سماجی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: بحرین سیاسی، اقتصادی، قتل عام ، امنیتی بحران اور امنیت، ثبات، ظلم اور قتل عام کے خاتمہ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: فطری طور پر ہر سالم عقل پہلے راستہ سے گریز اور دوسرے راستہ پر گامزن ہوگی لھذا حکومت کے ہمدردوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ بھی دوسرے راستہ کو انتخاب اور ملک کی امنیت اور ثبات کو مورد توجہ قرار دیں۔
آیت الله غریفی نے ملکی استحکام کو موثر اقدامات کا مرھون منت جانا اور کہا: بحرین، نعرے بازی اور نصائح کے ذریعہ مستحکم نہیں ہوسکتا بلکہ اصلاحات کی انجام دہی اور استحکام کی حکمرانی کے لئے موثر قدم اٹھانا ضروری ہے۔
انہوں نے علاقہ کے پڑوسی ممالک کی موجودہ بدترین صورتحال کی جانب اشارہ کیا اور کہا: دنیا کے گوشہ گوشہ سے ظلم و زیادتی ، ستم اور قتل عام کی فریادیں سنائی دے رہی ہیں ، تاہم کسی بھی عقل و دین و انسانیت نے اس قتل عام کی حمایت نہیں کی ہے۔
بحرین کے اس عالم دین نے دھشت گرد کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: اپنے حقوق کی دستیابی اور آزادی کے خواہاں افراد ھرگز دھشت گرد نہیں ہیں بلکہ دھشت گرد وہ لوگ ہیں جو عوام کو کلچنے میں مصروف ہیں، آل خلیفہ حکومت دھشت گردی کے معنی سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہوئی ہے اور اپنی فورسز کے اقدامات کو دھشت گردانہ نہیں سمجھتی ہے۔
آیت الله غریفی نے ان مسلمان نما افراد کو جو دھشت گردی کے باوجود خود کو مسلمان کہتے ہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: قتل ، ذبح ، قتل عام اور دھشت گردانہ اقدامات، اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہیں اور اس بدترین اعمال کے انجام دینے والے افراد جو خود کو مسلمان کہتے ہیں در حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج ہیں کیوں کہ قتل عام اور ظلم و زیادتی تمام مذاھب اور ادیان کی نگاہ میں شرعا اور قانونا ناجائز اور حرام ہے۔
انہوں نے آخر میں گذشتہ ھفتہ بحرینی بادشاہ کے مشاور نبیل الحمر کے ہاتھوں بحرین کے شیعہ رھبر آیت الله شیخ عیسی قاسم کی توہین کئے جانے کی جانب اشارہ کیا اور کہا: آیت الله شیخ عیسی قاسم کی دوبارہ توہین ناقابل تحمل ہوگی اور آل خلیفہ حکومت سنگین نتائج سے روبرو ہو گی کیوں کہ توہین اور فحاشی اصلاحات سے ناہماہنگ ہے۔