تاریخ شائع کریں2023 27 November گھنٹہ 16:20
خبر کا کوڈ : 616159

حضرت زہرا (س) کی شہادت

لیکن حال ہی میں دوسرا فاطمیہ (تین جمادی الثانی) شہرت پاچکا ہے، اور شاید اس کا ماخذ حاجی نوری یا ان کے شاگرد ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ تاریخی کتب کے مختلف نسخوں میں 75 اور 95 دن کا یہ فرق در اصل عربی کے دو الفاظ"سبعین" اور " تسعین" کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
حضرت زہرا (س) کی شہادت
حضرت زہرا (س) کی شہادت جس دن بھی ہو رجاء کی نیت سے توسل کرنا چاہیے اور احادیث کے مطابق قصد رجاء سے توسل کرنے سے مطلوبہ ثواب مل جاتا ہے۔

 ایام فاطمیہ کے حوالے سے ذہن میں آنے والے سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے ایام فاطمیہ میں کیا فرق ہے؟

مراجع تقلید میں سے ایک آیت اللہ سید موسی شبیری زنجانی اس سلسلے میں 8 اکتوبر  1995 کو اپنے درس خارج (اعلی اجتہادی فقہی بحث) میں فرماتے ہیں:

قدیم الایام سے عام لوگوں کے درمیان ایام فاطمیہ، وہی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا دن یعنی 13 جمادی الاول مشہور ہے۔

لیکن حال ہی میں دوسرا فاطمیہ (تین جمادی الثانی) شہرت پاچکا ہے، اور شاید اس کا ماخذ حاجی نوری یا ان کے شاگرد ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ تاریخی کتب کے مختلف نسخوں میں 75 اور 95 دن کا یہ فرق در اصل عربی کے دو الفاظ"سبعین" اور " تسعین" کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

تاریخی کتابوں کے مختلف نسخوں میں سبعین کا لفظ تسعین سے تصحیف ہوا ہے یا اس کے برعکس۔ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ اس لفظ میں اکثر نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے تسامح ہوا ہے اور فقہی اعتبار سے اصل عدم خطا بھی جاری نہیں ہوسکتی۔

بہر حال حضرت فاطمہ س کی شہادت کسی بھی دن ہو رجاء کی کی نیت سے توسل کرنا چاہئے اور احادیث کے مطابق رجاء کی نیت سے توسل کرنے پر وہی ثواب ملتا ہے جس کا روایات میں وعدہ کیا گیا ہے۔

محاسن برقی میں مذکور ہے کہ حضرت نے فرمایا: حروریہ (خوارج کا ایک گروہ) کی روایت کردہ احادیث کو رد نہ کرو، ممکن ہے کہ یہ حدیثیں صادر ہوئی ہوں کیونکہ ان کا کذب یقینی نہیں ہے اور چونکہ یہ محتمل ہیں لہذا رجاء محفوظ رہنا چاہئے۔

چنانچہ قاعدہ تسامح اور اسی طرح کے دیگر اصولوں کا تقاضا ہے کہ مسلم روایات کے مطابق توسل کے لیے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے لہذا اس (توسل) کی حفاظت کرنی چاہیے، چاہے وہ پہلا فاطمیہ ہو یا دوسرا۔

میں نے تبریز کے جناب آغا مرزا جعفر اشراقی سے سنا ہے کہ وہ علم امام ع کے بارے میں فرماتے تھے کہ کچھ چیزوں کا جاننا کمال ہے اور کچھ چیزوں کا نہ جاننا کمال کے لیے شرط ہے اور خدا اس علم کو ائمہ سے لیا کرتا تھا، مثال کے طور پر لیلة المبیت میں اگر حضرت امیر ع جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سونے سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تو وہ کما نہیں تھا، کمال کی شرط جو حضور کی قربانی کو ظاہر کرتی ہے وہ یہ تھی کہ نہ جانے اور نہیں جانتے تھے۔"

ایسے موارد کہ جہاں  نہ جاننا شرط کمال ہو خدا وہاں علم سلب کر لیتا ہے۔ جیسے لیلۃ المبیت اور اس کے مشابہ موارد۔ 

بعض اوقات کسی مصلحت کے پیش نظر خود ائمہ ع چاہتے ہیں کہ معاملہ مخفی رہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک بھی ایسی مصلحت کی متقاضی ہے تاکہ آپ کی مظلومیت ثابت ہوجائے اور یہ آئندہ ادوار میں بھی باقی رہے۔ 

بعض چیزیں ایسی ہیں جو احادیث مبارکہ کی رو سے ان کا قائم رہنا ضروری ہے اور انہیں فنا نہیں ہونا چاہیے، مثلاً حجر اسود، فرعون کی لاش اور اس جیسی چیزیں آیات بینات میں سے ہیں۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک کا مخفی ہونا بھی آیات بینات میں سے ہے۔
https://taghribnews.com/vdchm-n-w23nzzd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ