امام حسن علیہ السلام کے لشکر میں اتحاد اور ہماہنگی کا فقدان تھا۔ لشکر میں مختلف ذہنیت کے لوگ موجود تھے۔ کچھ فرمانبردار، کچھ خاموش احتجاج کرنے والے، بعض کھلم کھلا احتجاج کرنے والے، کچھ فریب میں آئے ہوئے جبکہ بعض خیانت کار بھی موجود تھے۔
مارنے والا صہیونی ہے، مرنے والے عام مسلمان ہیں۔ بھوک کا شکار معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے ہیں۔ جہاں لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہوچکے ہوں، وہاں ادویات اور دیگر وسائل زندگی کی کیا بات کی جائے۔
تیسرا یہ ہے کہ شکست خوردہ داعش کے باقی ماندہ 6000 سے 9000 کے قریب دہشت گرد امریکہ کی سرپرستی میں فرات کے مشرق اور شام میں موجود ہیں، خود امریکی پالیسی سازوں کے مطابق وہ صیہونیوں اور انگریزوں کے پیادے ہیں۔
لبنان، یمن، عراق اور شام کے نئے محاذوں کا آغاز خطے کے جغرافیائی اور سیاسی منظر نامے میں ایک اہم پیشرفت ہے، جو خطے میں اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی فعال موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے ایک سال بعد بھی یمنیوں کا دعویٰ ہے کہ صنعاء ریاض مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے( وہ بھی مکمل نہیں ہو) کے علاوہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
عالمی تنظیم (اقوام متحدہ)کے بارے میں خیالات ان تشخیصات کی عکاسی کرتے ہیں جو ایک انچ گہری لیکن ایک میل چوڑی ہیں۔ امریکیوں کا ان دنوں اقوام متحدہ پر کم و بیش اعتماد نہیں ہے۔
ہمارے وزیرِ دفاع خواجہ آصف صاحب نے اس بارے میں بیان دیا ہے کہ دہشتگردوں کو نہ روکا گیا تو افغانستان کی بھارت کیساتھ تجارتی راہداری بند کر دیں گے۔ یہ بیان بڑا قیمتی ہے، اس پر ہم آخر میں بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پیغمبراکرم نے جبرئیل سے سورہ فرقان کی آیت «هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَ ذُرِّیَّاتِنا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَ اجْعَلْنا لِلْمُتَّقِینَ إِماما» کے بارے میں سوال کیا کہ ان ازواج سے مراد کون ہیں جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے؟ تو جبرئیل نے عرض کیا حضرت خدیجہ۔
آج یوکرین جنگ کے تیسرے سال کے آغاز پر روس یوکرین کے چار صوبوں کے اکثر حصوں پر قابض ہو کر انہیں اپنے ساتھ ملحق کر چکا ہے جبکہ ایڈیوکا جیسے اسٹریٹجک شہر پر روس کے قبضے نے یوکرین پر اسٹریٹجک ضرب لگائی ہے اور مغرب نواز کیف حکومت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
امریکا میں ہولوکاسٹ میوزیم کے ماہرین سے گفتگو کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کسی بھی معاشرے کو قتلِ عام اور نسلی تطہیر سے بچانے کی صورتیں کیا ہوسکتی ہیں۔
دوسری طرف غزہ پر جارحیت کی مرتکب غاصب صیہونی حکومت اسرائیل بھی شدید مشکلات میں ہے۔ جن مقاصد کے تحت غزہ پر جارحیت کا آغاز کیا تھا، آج ایک سو ستر دن گزر جانے کے باوجود بھی ایک بھی ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ بڑے پیمانے پر فوجیوں کا جانی نقصان ہوچکا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بھی اس بندرگاہ کی تعمیر میں تعاون کا اعلان کیا ہے جس کے باعث اس راہداری اور بندرگاہ کے منحوس اہداف کے بارے میں مزید شکوک و شبہات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بائیڈن کا مقصد امریکی – صیہونی فوجی اتحاد کے ذریعے غزہ کی پٹی پر مارشل لاء کا نفاذ ہے۔
اسلامی جمہوریہ کی میزائل کامیابیاں صرف بیلسٹک اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ فضائی دفاع کے میدان میں دفاعی میزائلوں کی تیاری کی وجہ سے ملک کے آسمانوں کو محفوظ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔
مزید برآں، دوبئی کے سب سے بڑے بینک اور بوعلیم نامی صیہونی بینک کے درمیان معاہدہ دوطرفہ سرمایہ کاری میں درپیش خطرات کم ہو جانے اور پیسے کی منتقلی میں آسانی کا باعث بنا۔
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ صیہونیت کے جرائم کے جواب میں دنیا ہماری قوم سے کیا امید رکھتی ہے؟" مسجد اقصیٰ پر صیہونیوں کے منصوبوں سے نمٹنے کے لیے اس قوم کو کیا کرنا چاہیے؟
عالم اسلام کے چہرے کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے مشترکہ اسلامی ذرائع ابلاغ کی ترویج و ترقی۔ تنظیموں اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کروانا۔