جہاں تک ایران میں ہونے والے حملے کا تعلق ہے، یہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکیان کی تقریب حلف برداری تھی اور تقریب کے لئے 80 سے زیادہ ممالک کے سرکاری وفود اور اعلیٰ شخصیات سمیت اسلامی مزاحمت کے اہم عہدیدار موجود تھے
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ "کور چشم" اور بے بصیرت لوگ ہر بات میں اپنے مطلب کی بات تلاش کرنے لگتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ بعض لوگوں کو اس "واقعہ شہادت" کا غم کم اور "جائے شہادت" کا 'ہم' زیادہ ہے، صبح سے بے تکی باتیں بنائی جارہی ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی چشم صیاد اور نگاہ عیار کہیں بھی کسی کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
افسوسناک امر ہے کہ حکومت اور مشران کا کردار کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ وہاں کے مقامی افراد کی اگر بات کریں تو پارا چنار کے شیعہ سنی متحد رہنا چاہتے ہیں۔ وہ جنگ کے مخالف ہیں۔ وہ تو آپس میں رابطے میں بھی ہیں، امن کیساتھ رہنا چاہتے ہیں، وہ وحدت کے خواہاں ہیں، لیکن یہ خفیہ ہاتھ ہے، جو وہاں فرقہ واریت کو ہوا دے کر بدامنی کو فروغ دے رہا ہے۔
یہودی آبادکاروں کا بڑا حصہ جنگ جاری رہنے کے خلاف ہے۔ وہ اپنے اس موقف کے معقول دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ اس وقت تک انہیں غزہ جنگ سے جس حد تک شدید نقصان پہنچا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
نتن یاہو کے خطاب کے دوران کانگریس کی عمارت کے باہر ہزاروں امریکی غزہ میں صہیونی حکومت کے مظالم اور نتن یاہو کی پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔ مظاہرین نے امریکی کانگریس سے ان کے خطاب کی بھی بھرپور مذمت کی۔
صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے تحقیقی ادارے نے تاکید کی: ظاہر ہے کہ غزہ میں جنگ بند کیے بغیر یمن کے حوثی (انصار اللہ) جلد ہی اسرائیل پر حملہ کرنا بند نہیں کریں گے۔
امریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ" نے لکھا: ٹرمپ کے ساتھ گرمجوش تعلقات رکھنے والے رہنما اور صدور وائٹ ہاؤس واپس آنے پر خصوصی مراعات حاصل کریں گے۔ ان حسابات کا بنیادی مرکز یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت غزہ جنگ کے بارے میں واشنگٹن کے نقطہ نظر کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے وکیل نے غزہ کی پٹی کے قیدیوں پر تشدد کے بارے میں نئی دستاویزات پیش کیں جن میں صیہونی حکومت کی جیلوں میں عصمت دری اور طویل مدتی فاقہ کشی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
آج نویں محرم کو عاشقان اہل بیت حضرت علمدارؑ کا غم مناتے ہیں۔ ائمہ کرام سے حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام کی کئی خصوصیات نقل ہوئی ہیں۔ آپ اپنی اعلی صفات میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک بصیرت ہے۔
انہوں نے کہا: شیعہ اور سنی دونوں نے اپنی معتبر کتب میں حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ شیعہ کتب میں یہ خطبہ امام باقر علیہ السلام سے بھی منقول ہوا ہے اور زید بن ارقم، حذیفہ بن یمان سے بھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای دام ظلہ فرماتے ہیں "ہم شیعوں پر لازم ہے کہ غدیر کی حقیقت سے دنیا کو آشناء کروائیں۔ غدیر کا مسئلہ تمام انسانوں کی وحدت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔"
حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول دعائے عرفہ میں توحید کے مراتب اور حقائق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس دعا میں غور و فکر کرنے سے ہمیں توحید کی زیادہ پہچان حاصل ہوتی ہے۔
آپ کے پدر گرام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور مادر گرامی فاطمه بنت امام حسن علیہ السلام تھی اور علماء کا اتفاق ہے آپ ماں باپ دونوں کی طرف سے علوی اور ہاشمی تھے نسب کا یہ شرف کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔
یہ تمام نکات بلاشبہ مثبت ہیں لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ ان پر عمل در آمد کیسے ہوگا۔ اب یہ امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس منصوبے پر مکمل طور پر عمل درآمد کروائیں۔
چین نے فوری طور پر جزیرے کے ارد گرد ایک فوجی مشق شروع کرکے جواب دیا، جو کہ بیجنگ کے اپنے الفاظ میں، "طاقت پر قبضہ کرنے” اور ایک مؤثر بحری ناکہ بندی کی مشق تھی۔
مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان المبارک کو پیدا ہوئے. تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا یوم ولادت 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14)
فوکس نیوز نے رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کا مکمل خط نشر کرتے ہوئے شہہ سرخی میں لکھا کہ "ایران کے سپریم لیڈر نے تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونے کی وجہ سے امریکی طلباء کی قدردانی کی"
ان یورپی ممالک کے اس اقدام کے ردعمل میں وائٹ ہاوس کا عجولانہ ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنے یورپی اتحادیوں کی جانب سے خودمختار فلسطینی ریاست سے متعلق امریکہ کے سرکاری موقف سے مختلف موقف اپنانے پر ناخوش ہے۔
اختلافِ فتویٰ دلیل افتراق نہیں۔ کچھ مسلمان شیعہ ہیں، کچھ حنفی ہیں، کچھ حنبلی اور کچھ اہل حدیث، اصلاً اس طرح کی تقسیم اول ہی سے درست نہ تھی۔ ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں سب اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ان مسائل کو اٹھنا نہیں چاہیئے۔
ایران کے مقدس شہر قم میں واقع مدرسۂ فیضیہ میں، 56 سال قبل اسی دن، عاشور کی تقریر میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے شاہی حکومت کی اسلام مخالف پالیسیوں اور صیہونی حکومت کے ساتھ اس کے روابط اور سازشوں کا پردہ فاش کیا تھا ۔