حقیقت ہے کہ جناب ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان نے عوام کے دلوں میں جوش و جذبہ موجزن کر دیا ہے۔ اس کے نتائج ان شاء اللہ بہت جلد عملی پیشرفت اختیار کریں گے۔
ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسرائیل پر حملے کو "محدود" رکھا اور ان کا ہدف "اسرائیلی آبادی اور اقتصادی مراکز" نہیں بلکہ فوجی اڈے تھے۔
دوسری طرف فلسطینی مجاہدین کے پاس نہ ٹینک ہیں، نہ ایئر ڈیفنس سسٹم ہے اور نہ ہی جدید جنگی طیارے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے تاریخی کامیابی حاصل کر کے دنیا والوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
دنیا کی شیطانی طاقتیں، بالخصوص امریکہ، "خوف اور عزم" کے نظریہ کے ساتھ حکومتوں اور قوموں پر حکومت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے اتحادیوں کو بھی اس نظریئے سے جکڑ رکھا ہے۔
اب کولمبیا یونیورسٹی اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے اجتماع کی جگہ بن چکی ہے۔ اسرائیلیوں نے اپنے ساتھ ناانصافی کا جو ڈھونگ رچایا تھا، آج وہ ان کے لئے عذاب بنتا نظر آرہا ہے۔
نوجوانوں کی مختلف سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب امریکہ میں طلباء اور عام طور پر نوجوان اسرائیلی حکومت کے لیے اپنے ملک کی ہمہ جہت حمایت کے خلاف بڑھ چڑھ کر احتجاج کر رہے ہیں.
لبنان کے حوالے سے امریکی ویب سائٹ "پروویڈنس" نے حال ہی میں لکھا ہے کہ واشنگٹن کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ لبنان کے خلاف اس کی پالیسی بری طرح ناکام رہی ہے۔
اب ذرا اس منظر کو دیکھیں، نیویارک میں امریکی صدر الیکشن کمپین کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے جمع ہوئے ہیں۔ اس کی اطلاع امن پسند جنگ مخالف امریکی عوام کو ہو جاتی ہے۔ ادھر نیویارک میں فنڈ ریزنگ کمپین شروع ہوتی ہے اور بات کروڑوں ڈالر سے اربوں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔
اردن حکومت اتنے وسیع پیمانے پر اردنی عوام کی جانب سے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہروں پر راضی نہیں ہے۔ فلسطین کے حق میں دارالحکومت امان میں منعقد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اب تک ہزاروں مظاہرین اردن کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔
کچھ اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جن کے غاصب صیہونی رژیم سے سفارتی تعلقات ہیں اور انہوں نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کیلئے حتی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔
ایران نے کروز میزائل، شاہد ڈرون طیارے اور عماد بیلسٹک میزائل استعمال کئے جس میں نواطیم کے ہوائی اڈے کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا اس کے علاوہ مقبوضہ گولان میں ایک فوجی تنصیب کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
جنگ پھیلی تو روس، چین، ایران اور شمالی کوریا یک جان چار قلب جبکہ امریکہ یورپ بشمول اسلامی ممالک کے دوسری طرف ہونگے۔ پچھلے چند سال میں ایران سفارتی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چُکا ہے۔
ایران کے انقلاب نے صدیوں کا ”سٹیٹس کو“ توڑ کر ظہورِ منجیء بشریت کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ قادرِ مطلق نے اپنے کلامِ مقدس میں جہاں دنیائے ستم کے خلاف آخری قیام کرنے والے مہدیء موعود کا مختلف پیراٶں میں ذکر کیا ہے
ایک طرف مسجد نبوی کی پر رونق فضا دوسری طرف بقیع کی سرحد پر امڈی ہوئی قضا جس کی چادر نے رسول اعظم ص کو رزق شفا عطا کیا ہو آج اسکی قبر مطہر کی زیارت کا رزق وفا گنہگاروں کو نصیب نہیں ہو رہا ہے۔
غاصب صیہونی رژیم کے برعکس اسلامی جمہوریہ ایران نے اس پر اچانک حملہ نہیں کیا بلکہ دو ہفتے پہلے سے جوابی حملہ انجام دینے کا اعلان کر چکا تھا اور خطے کے ممالک بھی اس سے پوری طرح مطلع تھے۔
البتہ آج سے تقریباً 98 سال قبل یعنی ١٣٤٤ھ/ ١٩٢٦ء میں 8 شوال کو مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔"
حتمی نقطہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کسی ملک کی اتھارٹی کا مطلب اس کی دفاعی طاقت کا عقلی استعمال ہے۔ دوسری صورت میں، یہ اختیار اور ابتکار عمل ایک ننگی طاقت اور قوت بن جاتا ہے.
سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں، ’یہ فلسطینیوں اور مسلم امہ کو ایک متاثر کُن پیغام بھی دیتا ہے کہ کم از کم ایک مسلم ملک تو ایسا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں کترائے گا‘۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کل رات کا حملہ یک جہتی نہیں تھا۔ کل سہ پہر ایک اسرائیلی تجارتی جہاز کو ایران نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ مقبوضہ علاقوں میں بجلی منقطع ہوگئی اور جہاز رانی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ نیز اس حملے میں ڈرون اور میزائل بیک وقت استعمال کیے گئے۔