اب غزہ اور لبنان کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کے تسلسل اور اس بے مثال جرم کو روکنے میں عالمی برادری کی نااہلی کے باعث پچاس سے زائد ممالک نے مقبوضہ علاقوں میں ہتھیاروں کی ترسیل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران نے خطے میں چین اور روس جیسے طاقتور اتحادی بنا رکھے ہیں جبکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے علاقائی اتحادوں میں بھی شامل ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت امریکہ ہمیشہ سے زیادہ خطے میں کمزور ہو چکا ہے۔
لیکن میں آپ سے کہتا ہوں۔ جو آپ کا حق ہے، اس پر مذاکرات نہ کریں۔ وہ آپ کے ہتھیار سے زیادہ آپ کی مقاومت سے ڈرتے ہیں۔ مزاحمت ہمارے ہاتھ میں صرف ایک ہتھیار نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری ہر سانس میں موجود فلسطین سے محبت اور ارادہ ہے، جس پر ہم محاصرے اور جارحیت کے باوجود قائم رہنا چاہتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگرچہ غاصب صہیونی رژیم کو شکست ہوئی ہے لیکن اس سے بڑی شکست مغربی تہذیب کو ہوئی ہے۔
ڈرکر نے مزید کہا کہ جنگ کو ختم کرنے کے بجائے نیتن یاہو تیزی سے اپنے اگلے ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں، جو کہ ایران ہے، تاکہ وہ جنگ کو طول دے سکیں اور امریکہ کو اس تنازع میں ملوث کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کو حاصل کر سکیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا فضائی نظام ناقابل تسخیر نہیں ہے اور بہت سے ڈرون اس کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے قابل ہیں۔
صہیونی حکومت کے میڈیا اور عہدیداروں نے "گولانی" بریگیڈ اڈے پر حزب اللہ ڈرون حملے کو مشکل اور تکلیف دہ قرار دیا ہے اور اس حکومت کے قائدین کو متنبہ کیا ہے کہ حزب اللہ تل ابیب کو ایک تکلیف دہ جنگ کی طرف لے جاسکتا ہے۔
روایات کے مطابق حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے اپنے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مدینہ سے خراسان کا سفر کیا۔
امام علیہ السلام نے ہجرت کر کے دور دراز کے علاقوں میں بود و باش اختیار کرنے والے شیعوں کو بھی تنہا نہیں چھوڑا بلکہ انکے مسائل کے حل کے لئے اپنے وکیلوں کو روانہ کیا، جو ہر جگہ کے شیعوں کے مسائل سے آگاہ ہوتے اور انکے مسائل کو حل کرتے۔
حال ہی میں اسرائیل کے چینل 14 نے عراق کے شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی تصاویر نشر کیں، اور انہیں صیہونی حکومت کے اگلے ممکنہ قتل کے اہداف میں شمار کیا۔
طوفان الاقصی سے پہلے دنیا مسئلہ فلسطین کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ حماس نے سات اکتوبر کو کاروائی کرکے دنیا کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی اور عالمی فورمز پر مسئلہ فلسطین کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔
گارڈین اخبار نے ایران کے ساتھ تنازعہ جاری رہنے کی صورت میں صیہونی حکومت کی کمزوری کا اعتراف کیا اور لکھا: تہران کے حملوں کی تشخیص سے معلوم ہوا کہ اسرائیل کا میزائل دفاعی نظام (حکومت) اتنا ناقابل تسخیر نہیں جتنا کہ اشتہار دیا گیا ہے۔
لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ اب ایسی منطق کس حد تک کام کر سکتی ہے کہ یہ تنازعہ روسی ریاست کے دارالحکومت کے بالکل قریب میں ہو رہا ہے، کہیں دور جیسا کہ افغانستان ہے ، وہاں نہیں ہورہا۔ خاص طور پر چونکہ گزشتہ تیس سالوں میں نیٹو کی توسیع کی پالیسی نے امریکہ کے لیے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں جو اس کے لیے ایک طرح سے چیلنجز بھی ہیں۔
لیک سے پتہ چلتا ہے کہ دھماکہ خیز مواصلاتی سامان لیتھیم بیٹریوں سے لیس ایک نئی کھیپ کا حصہ تھا جو زیادہ گرم ہونے کے نتیجے میں پھٹ گیا تھا، اور یہ کہ حزب اللہ کے ارکان کی طرف سے درآمد اور استعمال کرنے سے پہلے تمام پیجرز میں ایک چپ لگائی گئی تھی۔
شام میں ایرانی سفارتخانے کے عربی پیج نے بھی ایکس اکاونٹ پر ایک پوسٹ میں اسرائیلی میڈیا میں کیے گئے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ شام میں مصیاف مرکز پر بمباری کے دوران کوئی ایرانی مشیر زخمی نہیں ہوا اور یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپؑ کے فرزند ارجمند منجی عالم بشریت، قطب عالم امکان، لنگر زمین و زمان حضرت صاحب الزمان امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف و صلوات اللہ وسلامہ علیہ و علی آبائہ الطاہرین کے دور امامت کا آغاز ہوا۔
کس زبان سے کہوں کس دل سے کہوں ہم نے تو یہی سوچا تھا کہ اب کہ بار زھرا کے چاند عرش بریں کے تارے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے دل میں مہمان کروں گا انہیں کبھی بھی رخصت نہیں کروں گا اور شہزادہ کونین کو اپنی زندگی میں بسا لوں گا جینا اور مرنا انہیں کے اصولوں کے مطابق ہوگا۔۔۔
اس عبرانی اخبار نے آج اپنی رپورٹ میں لکھا: سعودی عرب کے سفیر نے اس اجلاس میں ایک "متاثر کن" تقریر کی جس میں مغرب اور بحرین کے سفیروں نے بھی شرکت کی جس کا اسرائیلی میڈیا نے خیر مقدم کیا۔